مغرب میں فلمسازی اور تھیٹر کی بات کی جائے تو اکثر اِن میں افغانستان کی عکاسی نیلے برقعوں میں ملبوس خواتین اور ہاتھوں میں کلاشنکوف اٹھائے مردوں کی صورت میں کی جاتی ہے۔
مگر سنہ 2017 میں دو امریکی شہریوں نے کچھ مختلف اور غیر روایتی کرنے کی کوشش کی۔ شاعر چارلی سوہنے اور موسیقار ٹم روسر نے افغانستان کے ایک ایسے موضوع پر میوزیکل شو بنایا جسے افغان عوام انتہائی حساس موضوع سمجھتے ہیں اور اس سے متعلق بات کرنا مناسب نہیں سمجھتے۔
وہ موضوع تھا ’بچہ بازی‘۔ افغانستان میں کم سن لڑکوں کے ساتھ جنسی زیادتی کو ‘بچہ بازی’ بھی کہا جاتا ہے۔
’بچہ بازی‘ دراصل طاقتور، بااثر اور امیر بڑی عمر کے مردوں کی جانب سے کم سن لڑکوں کو خریدنے اور اپنے ساتھ تفریح اور سیکس کے لیے رکھنے کا نام ہے۔
ان لڑکوں کو ’ڈانسنگ بوائز‘ یعنی ناچنے والے لڑکے بھی کہا جاتا ہے۔ ان لڑکوں کو شہوت انگیز انداز میں ناچنے کی تربیت دی جاتی اور یہ صرف مردوں کی محفلوں میں ناچتے ہیں اور اکثر ان کا جنسی استحصال بھی کیا جاتا ہے۔
’دی بوائے ہو ڈانسڈ آن ائیر‘ نامی اس میوزیکل ڈرامے میں ’بچہ بازی‘ میں پھنسے ایک 16 برس کے لڑکے پیمان اور ایک اور کم سن لڑکے کی محبت کی کہانی بیان کی گئی تھی۔
یہ بھی پڑھیے افغانستان ہم جنس پرستوں کی خفیہ زندگی
‘مجھے کہا گیا کہ یہ تو کوک ہے نہ ہی سپرائٹ، یہ تو فانٹا ہے’
پیمرا ’ہم جنس پرستی‘ پر معترض، ’ہم‘ ٹی وی کو نوٹس
اس میوزیکل ڈرامے نے کچھ فلم نقادوں کو بہت متاثر کیا اور انھوں نے اس ڈرامے کو ’دلیرانہ، خوبصورت اور سمجھدارانہ کاوش‘ قرار دیا تھا۔ نیو یارک ٹائمز میں شائع ہونے والے ایک فلمی جائزے میں اس موضوع کو ’پریشان کُن‘ قرار دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ سوہنے اور روسر ’مشکل موضوع پر بات کرنے کے چیلنج کو بہت آگے تک لے گئے ہیں۔‘
افغان ہم جنس پرستی،تصویر کا ذریعہDIVERSIONARY THEATRE مگر اس اقدام پر دنیا بھر میں بسنے والے افغان عوام کی جانب سے، جنھوں نے پہلی مرتبہ اس ڈرامے کو دیکھا، سخت ردعمل سامنے آیا اور انھوں نے اس شو پر تنقید کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ اس میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور بچوں کے ریپ کو رومانوی انداز میں دکھایا گیا ہے۔
امریکہ میں مقیم ایک افغان سماجی کارکن مدینہ وردک کہتی ہیں کہ انھوں نے اس ڈرامے کو 40 منٹ تک دیکھا اور پھر انھیں اس کو بند کرنا پڑا۔
ان کا کہنا ہے کہ ’مجھے بیک وقت بے چینی، غلط فہمی، پریشانی اور اضطراب کا احساس ہوا۔ شو میں جب بھی اداکار حقیقت کے قریب تر ہونے کی کوشش کرتے تو میں خوفزدہ ہو جاتی اور تماشائی ہر بار افغانستان کی تکلیف پر ہنستے تھے۔‘
اس ڈرامے میں اس عمل کو افغانستان میں عام رواج کے طور پر دکھائے جانے پر بھی تنقید کا سامنا ہے۔
افغان اداکارہ اور مینا آرٹس کی بانی اذیطا غنی زادہ کہتی ہیں کہ ’بچہ بازی ایک ضرر رساں عمل ہے اور اسے کسی صورت بھی رومانوی انداز میں پیش نہیں کیا جانا چاہیے۔‘ ان کا کہنا ہے کہ ’سفید فام نظریے کے تحت افغانستان کی اس عکاسی نے ہمارے معاشرے کو بری طرح ہلا دیا ہے۔‘
سوشل میڈیا پر صارفین کی جانب سے اس شو کے بارے میں تنقید اور غصے کا اظہار کیے جانے کے بعد جاپانی نژاد امریکی اداکار ٹروئے اواٹا نے، جنھوں نے اس شو میں پیمان کا کردار ادا کیا ہے، اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ سے معافی مانگی ہے۔
انھوں نے لکھا ’کچھ عرصہ پہلے میں نے ایک شو کیا تھا جس میں میں نے ایک افغان لڑکے کا کردار ادا کیا تھا جو کہ میں اصل میں نہیں ہوں۔ اس میوزیکل ڈرامے میں افغانستان میں لڑکوں کے ساتھ جنسی زیادتی کو رومانوی انداز میں دکھاتے ہوئے اس معاشرے اور وہاں کی عوام کے متعلق غلط فہمی پیدا کی گئی۔ میں اس پر معافی مانگتا ہوں۔‘
افغانستان کے قانون میں غیر قانونی ہونے کے باوجود حکام ’بچہ بازی‘ کو ختم کرنے میں ناکام رہے ہیں کیونکہ اس عمل میں زیادہ تر معاشرے کے بااثر اور طاقتور افراد شامل ہیں۔ ان افراد کے لیے ’بنا داڑھی مونچھ کے بچہ‘ رکھنا یعنی کم سن لڑکا رکھنا طاقت اور معاشرے میں اعلیٰ مقام کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
1990 کی دہائی میں طالبان نے اسے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے لڑکوں کے ساتھ سیکس، ناچنے اور موسیقی پر سزائے موت کا اعلان کیا تھا۔ البتہ اس شدت پسند گروہ کے ارکان پر خود اس نوعیت کی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزامات تھے۔
شو ’دی بوائے ہو ڈانسڈ‘ کی پروڈکشن میں افغانیوں کی عدم موجودگی یا ان کی مشاورت کا شامل نہ ہونا بھی اس ڈرامے پر تنقید کی ایک وجہ ہے۔
افغان اداکارہ غنی زادہ کا کہنا تھا کہ ’اگر چارلی اور ٹم اس کی تیاری میں افغانی باشندوں کو شامل کر لیتے تو وہ اس بارے میں زیادہ محتاط ہوتے اور سمجھداری سے کام لیتے۔ شاید انھوں نے سوچا ہو گا کہ یہ ان کی کہانی نہیں ہے جس کو وہ میوزیکل شو کی شکل دے رہے ہیں، لیکن افسوس افغانستان ان کی کہانی میں صرف ایک آلہ تھا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’کہانی نویسوں نے ہمارے ان زخموں پر نمک چھڑکا ہے جنھیں ہم ایک عرصے سے بھرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
افغان ہم جنس پرستی افغانستان کی ہم جنس پرستوں کی برادری نے اس ڈرامے کی کہانی کی نوعیت پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے ’اس شو نے جنسی استحصال کے حملوں میں بچ جانے والوں کو نقصان پہنچایا ہے۔‘
تھامس جیفرسن یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر اور ہم جنس پرست افغان ڈاکٹر قیس منہاظم کا کہنا تھا ’یہ افغانستان کے ہم جنس پرستوں اور ٹرانس جینڈرز کے لیے بھی انتہائی تکلیف دہ اور نقصان دہ ہے۔ اس میں ہم جنس پرستی کو غلط طور پر بچوں کی جانب جنسی رحجان سے جوڑا گیا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’امریکی فوج کے افغانستان پر حملہ کرنے کے آغاز سے ہی ٹریول بلاگرز اور محققین نے یہ کوشش کی ہے کہ اس فعل کو ہم جنس پرستی سے جوڑا جائے اور بیرون ملک رہنے والے افغانیوں سمیت افغانستان میں ہم جنس پرستی کی آزادی کو نقصان پہنچایا جائے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’افغانستان کے ہم جنس پرست اور ٹرانس جینڈرز اپنی زندگیوں اور تجربات میں مغرب کی نظروں سے اُکتا چکے ہیں۔‘
جب یہ شو آن لائن سٹریمنگ پر آیا تو دنیا بھر میں لوگوں نے اسے دیکھا۔ ہم جنس پرستی کی تعلیم دینے والی وازینا زندون کے مطابق ’اس نے ریپ اور بچوں پر جنسی حملوں کے متعلق بحث کا آغاز کیا جو جنسی شناخت تک کا احاطہ کرتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس کے نتیجے میں انھیں افعان اور غیر افعان ہم جنس پرست اور دیگر افراد کی جانب سے بہت سے ذاتی اور اصل کہانیاں سننے کو ملی ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’بطور افغان ہم جنس پرست میں سمجھتی ہوں کہ مغرب میں میرے تجربات افغانستان کی حقیقتوں سے مخلتف ہیں۔ البتہ اس میوزیکل ڈرامہ میں جو کہانی بتائی گئی ہے وہ افغانستان کے ہم جنس پرستوں کی کہانیوں اور تجربات کو مسترد اور ختم کرتی ہے۔‘
اس میوزیکل ڈرامہ پر سخت ردعمل آنے کے بعد اس کے پیش کاروں نے فوری طور پر دنیا بھر میں بسنے والی افغان برادری سے معافی مانگی ہے۔ لیکن اس پر افغان عوام کی طرف سے شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے اور انھوں نے مطالبہ کیا ہے اس کی پروڈکشن کو روکتے ہوئے اس کی آمدنی ’بچہ بازی‘ کے متاثرین کو دی جائے۔
افغان ہم جنس پرستی،تصویر کا ذریعہDIVERSIONARY THEATRE اس ڈرامے پر اس شدید رد عمل نے اس کے پیش کاروں اور ڈویژنری تھیٹر کو، جو ایک ہم جنس پرستوں کی کمپنی ہے اور جس نے اس میوزیکل کو آن لائن سٹریم کیا تھا، مجبور کیا ہے کہ وہ افغان کارکنوں اور عالموں کو اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے مباحثہ میں شامل کریں۔
ازیتا، ڈاکٹر منہاظم، زندون اور داردک سمیت افغان کمیونٹی کے اراکین سے مشاورت کے بعد سوہنے اور روسر نے دوسری مرتبہ معافی جاری کی ہے جس میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ وہ اس شو کی یوٹیوب ویڈیوز سمیت اس کی فروخت کو ختم کر رہے ہیں اور اس کو آن لائن سٹریمنگ سروسز سے بھی ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
اپنے مشترکہ بیان میں ان کا کہنا تھا کہ ان کے میوزیکل ڈرامے نے ’دنیا بھر میں بسنے والی افغان برادری اور خصوصاً افغانستان کے ہم جنس پرست کمیونٹی، جو پہلے ہی پسماندہ اور نظر انداز ہے، کے جذبات کو تکلیف پہنچائی ہے۔‘
انھوں نے ’بچہ بازی‘ کے متاثرین سے بھی معافی مانگی ہے جنھیں اس شو اور اس کی تشہیر کرنے والی پوسٹس سے تکلیف پہنچی ہے جن میں کہا گیا تھا کہ یہ رواج ’غیر قانونی، وحشیانہ اور جنسی تشدد والا ہے۔‘
بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’اب ہمیں یہ بھی احساس ہو گیا ہے کہ بحیثیت سفید فام مصنفین کے ہمیں کوئی حق نہیں تھا کہ ہم ان برادریوں کے بارے میں کہانیاں سنائے جن کی پہلے ہی اس ملک میں نمائندگی کم ہے اور وہ زیر عتاب ہیں۔‘
ڈویژنری تھیٹر نے، جو اس میوزیکل کو گذشتہ ہفتے تک آن لائن سٹریمنگ پر دکھا رہا تھا، اسے اپنی ویب سائٹ سے ہٹا دیا ہے اور اس ڈرامہ کی تشہیر کے لیے ’رواج‘ کا لفظ استعمال کرنے پر معافی بھی مانگی ہے۔
اس کے بنانے والوں کا کہنا تھا کہ وہ اس کی آمدن افغان کے خیراتی اداروں کو دیں گے تاکہ جہاں تک ممکن ہو سکے اس سے ہونے والے نقصان کا ازالہ کیا جا سکے۔ انھوں نے اس بات کو بھی تسلیم کیا ہے کہ اس ڈرامہ کی تیاری میں کسی افغان کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔
دنیا بھر میں بسنے والے افغان باشندوں نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے البتہ مس غنی زادہ کا کہنا ہے کہ کریٹیو آرٹس افغان کہانیوں سے پیسہ کمانے سے باز رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’کہانی نویس کو خصوصاً یہ سیکھنا ہو گا کہ ہمیں شامل کیے بنا، ہم سے مشاورت کیے بنا وہ ہماری کہانیوں پر قبضہ کرنا بند کریں اور ہمارے دکھوں سے پیسے کمانا ختم کریں۔‘
Your email address will not be published. Required fields are marked *
بین الافغان مذاکرات کے افتتاحی اجلاس میں کیا کیا ہوا؟
فیس بک کی جانب سے پاکستانی اکاؤنٹس اور ویب پیجز کا ایک ’منظم نیٹ ورک‘ معطل
کورونا سے متاثرہ سونگھنے کی حس سردی کے باعث بند ناک سے مختلف
طلوع اور غروبِ آفتاب کے وقت سورج کبھی کبھار سُرخ کیوں ہو جاتا ہے؟
بیلاروس میں ہزاروں مظاہرین کی ریلی، صدر ایلگزینڈر لوکاشینکو کے استعفے کا مطالبہ
جاپان میں ’محبت کے جاسوس‘ جو پیسوں کے عوض رشتے توڑتے اور بناتے ہیں
من هنا : http://themeforest.net/item/goodnews-responsive-wordpress-new ...
Teetr ...
Nice ...
Awesome! ...
Very Nice Theme, I have no words to appreciate :) Weldon Team .... ke ...
2018 Powered By SANE Media Services By SANE Team