محققین کے مطابق دنیا میں کورونا سے متاثر ہونے والے 80 فیصد افراد میں اس کی معمولی علامات ہی دکھائی دی ہیں اور ایسے لوگ جن میں یہ علامات شدت سے پائی گئیں اقلیت میں ہیں۔
سو سوال یہ ہے آپ اسے کیسے شناخت کر سکتے ہیں۔
یہ وائرس پھیپھڑوں کو متاثر کرتا ہے اور دو بنیادی علامات بخار اور مسلسل خشک کھانسی ہیں۔
صحت کے برطانوی قومی ادارے کے مطابق خشک کھانسی کا مطلب گلے میں خراش پیدا کرنے والی ایسی کھانسی جس میں بلغم نہیں نکلتا۔
دنیا میں کورونا کہاں کہاں: جانیے نقشوں اور چارٹس کی مدد سے
کورونا وائرس کی ویکسین کب تک بن جائے گی؟
کورونا وائرس اور نزلہ زکام میں فرق کیا ہے؟
آخر کرونا وائرس شروع کہاں سے ہوا؟
کورونا وائرس: سماجی دوری اور خود ساختہ تنہائی کا مطلب کیا ہے؟
کورونا وائرس: ان چھ جعلی طبی مشوروں سے بچ کر رہیں
کورونا وائرس: چہرے کو نہ چھونا اتنا مشکل کیوں؟
مسلسل کھانسی کا مطلب ہے کہ آپ قریباً ایک گھنٹے تک کھانستے رہیں ہوں یا چوبیس گھنٹے کے عرصے میں آپ کو کھانسی کے کم از کم تین دوروں کا سامنا کرنا پڑا ہو یعنی کہ آپ کی کھانسی عام حالات کے مقابلے میں زیادہ ہو۔
اس کا نتیجہ سانس پھولنے کی شکل میں بھی نکل سکتا ہے جسے اکثر سینے کی جکڑن، سانس لینے میں مشکل یا دم گھٹنے جیسی کیفیت بھی کہا جاتا ہے۔
اگر آپ کے جسم کا درجۂ حرارت 37.8 سنٹی گریڈ یا 98.6 فارن ہائٹ سے زیادہ ہو تو آپ کو بخار ہے۔ بخار کی صورت میں آپ کا جسم گرم ہو سکتا ہے، آپ کو سردی لگ سکتی ہے یا کپکپی طاری ہو سکتی ہے۔
اس کے علاوہ متاثرین میں گلے کی خرابی، سر درد اور اسہال کی علامات بھی پائی گئی ہیں جبکہ کچھ مریضوں نے ذائقے اور سونگھنے کی حس متاثر ہونے کی شکایت بھی کی ہے۔
عموماً کسی مریض میں علامات ظاہر ہونے میں پانچ دن کا عرصہ لگتا ہے لیکن کچھ افراد میں یہ دیر سے ظاہر ہوتی ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق انفیکشن کے لاحق ہونے سے لے کر علامات ظاہر ہونے تک کا عرصہ 14 دنوں پر محیط ہے لیکن کچھ محققین کا کہنا ہے کہ یہ 24 دن تک بھی ہو سکتا ہے۔
چینی سائنسدانوں کا خیال ہے کہ کچھ لوگ خود میں علامات ظاہر ہونے سے پہلے بھی انفیکشن پھیلانے کا سبب بن سکتے ہیں۔
حال ہی میں برٹش میڈیکل جرنل میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کووڈ-19 سے متاثر ہونے والے 78 فیصد افراد میں اس کی واضح علامات ظاہر نہیں ہوئیں یعنی طبی زبان میں وہ اےسمپٹمیٹک مریض تھے۔
اس تحقیق کے نتائج اس اطالوی گاؤں میں کی گئی تحقیق کے نتائج سے مطابقت رکھتے ہیں جو کورونا کی اس وبا کا ایک بڑا مرکز بنا۔ وہاں 50 سے 75 فیصد مریضوں میں بھی کوئی علامات ظاہر نہیں ہوئیں لیکن وہ اس کے پھیلاؤ کا بڑا ذریعہ ضرور بنے۔
آئس لینڈ میں کی گئی ایک اور تحقیق کے مطابق وہاں جن افراد میں کووڈ-19 کی تصدیق ہوئی ان میں سے 50 فیصد میں اس کی کوئی علامت موجود نہیں تھی۔
دریں اثنا عالمی ادارۂ صحت کی جانب سے 56 ہزار مریضوں کے معائنے کے نتائج کے مطابق:
80 فیصد میں معمولی علامات جیسے کہ بخار اور کھانسی پائی گئی جبکہ کچھ کو نمونیہ بھی تھا۔
14 فیصد میں شدید علامات پائی گئیں اور ان مریضوں کو سانس لینے میں شدید مشکل کا سامنا تھا۔
06 فیصد شدید بیمار تھے جن کے پھیپھڑے اور جسم کے دیگر اہم اعضا ناکارہ ہو چکے تھے اور ان کی موت کا خطرہ تھا۔
کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے افراد میں سے اکثریت آرام اور پیراسٹامول جیسی درد کش ادویات کے استعمال کے بعد ٹھیک ہو جائیں گے۔
اگر آپ کو بخار ہو جائے، کھانسی ہو یا سانس لینے میں دشواری کا سامنا ہو تو آپ کو ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے کیونکہ اس کی وجہ سانس کا کوئی انفیکشن یا کوئی دیگر چیز ہو سکتی ہے۔
مجھے کب ہسپتال جانے کی ضرورت ہے؟
کووڈ-19 میں وہ بنیادی وجہ جس بنا پر لوگوں کو ہسپتال جانا پڑتا ہے، سانس لینے میں دشواری ہے۔
ہسپتال میں ڈاکٹر آپ کے پھیپھڑوں کا معائنہ کریں گے تاکہ دیکھیں کہ وہ کتنے متاثر ہیں۔ زیادہ بیمار افراد کو انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں منتقل کر دیا جاتا ہے جو شدید بیمار افراد کے لیے خصوصی طور پر بنائے گئے ہیں۔
کورونا وائرس کے مریضوں کو آکسیجن دی جاتی ہے جو چہرے پر ماسک یا پھر ناک میں نلکی کی مدد سے فراہم کی جاتی ہے۔
بہت ہی زیادہ بیمار مریضوں کو وینٹیلیٹر پر منتقل کر دیا جاتا ہے اور یہ آلہ منھ، ناک یا گلے میں سوراخ کر کے لگائی گئی ایک ٹیوب کے ذریعے زیادہ آکسیجن ان کے پھیپھڑوں میں داخل کرتا ہے۔
کووڈ-19 سے متاثر ہونے کا زیادہ خطرہ کس کو ہے؟
معمر افراد اور وہ لوگ جو پہلے سے کسی بیماری جیسے کہ دمہ یا ذیابیطس یا دل کی بیماری کا شکار ہیں، کورونا وائرس سے زیادہ جلدی متاثر ہو سکتے ہیں۔
مردوں کے اس وائرس کا شکار ہونے کا خطرہ خواتین کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ ہے۔
معمولی مریضوں کی صحت یابی میں چند دن سے کئی ہفتے کا وقت لگ سکتا ہے لیکن اگر کوئی ہسپتال میں اور وہاں بھی انتہائی نگہداشت میں ہے تو اسے تندرست ہونے میں تو کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔
طبی جریدے لینسٹ میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق کووڈ- 19 سے مرنے والوں کی شرح ابتدا میں ایک سے دو فیصد رہی لیکن اب یہ 0.66 فیصد ہے۔
یہ عام فلو سے ہلاک ہونے والوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ انفلوئنزا سے دنیا میں ہلاکتوں کی شرح 0.01 فیصد ہے
لیکن کورونا سے مرنے والوں کی اصل شرح کا اندازہ لگانا فی الحال ممکن نہیں کیونکہ اس کے بہت سے مریض سامنے نہیں آئے ہیں۔
ہم خود کو کیسے محفوظ رکھ سکتے ہیں؟
عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے:
Your email address will not be published. Required fields are marked *
بین الافغان مذاکرات کے افتتاحی اجلاس میں کیا کیا ہوا؟
فیس بک کی جانب سے پاکستانی اکاؤنٹس اور ویب پیجز کا ایک ’منظم نیٹ ورک‘ معطل
کورونا سے متاثرہ سونگھنے کی حس سردی کے باعث بند ناک سے مختلف
طلوع اور غروبِ آفتاب کے وقت سورج کبھی کبھار سُرخ کیوں ہو جاتا ہے؟
بیلاروس میں ہزاروں مظاہرین کی ریلی، صدر ایلگزینڈر لوکاشینکو کے استعفے کا مطالبہ
جاپان میں ’محبت کے جاسوس‘ جو پیسوں کے عوض رشتے توڑتے اور بناتے ہیں
من هنا : http://themeforest.net/item/goodnews-responsive-wordpress-new ...
Teetr ...
Nice ...
Awesome! ...
Very Nice Theme, I have no words to appreciate :) Weldon Team .... ke ...
2018 Powered By SANE Media Services By SANE Team